اداسی کی چائے۔

 وہ ہر شام اُسی کافی شاپ کے کونے والی میز پر بیٹھتا، ایک کپ چائے اور خاموشی کے ساتھ۔ کھڑکی کے شیشے پر بارش کے قطرے ٹپکتے تو وہ اُنہیں گنتا کرتا، جیسے زندگی کے بکھرے لمحے جو کبھی اُس کے ہوا کرتے تھے۔  


اُس دن بھی وہ اداس تھا۔ چائے کی بھاپ اُس کے چہرے سے لپٹ رہی تھی، مگر اُس کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں۔ اچانک ایک لڑکھڑاتی ہوئی بوڑھی عورت اُس کی میز کے پاس آکھڑی ہوئی۔  


"بیٹا، کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟ باقی سب میزیں بھری ہوئی ہیں۔"  


اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ عورت کی آنکھوں میں بھی اُسی اداسی کے سائے تھے جو اُس کے اپنے دل میں بسی ہوئی تھی۔ اُس نے ہاں میں سر ہلایا۔  


"تمہیں کیا تکلیف ہے، بیٹا؟" عورت نے نرمی سے پوچھا۔  


وہ چُپ رہا۔ پھر ایک گہری سانس لے کر بولا: "زندگی بے معنی لگتی ہے۔ سب ختم ہو چکا ہے۔"  


عورت نے مسکرا کر اپنے ہاتھ کی ایک پرانی سی تصویر نکالی۔ "دیکھو، یہ میرا بیٹا تھا۔ اُس نے بھی یہی کہا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ اب ہر روز میں کسی اجنبی کے ساتھ بیٹھ کر اُس کی بات سنتی ہوں۔ شاید کوئی اُس کی طرح کی تکلیف میں ہو۔"  


اُس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُس دن پہلی بار کسی نے اُس کی خاموشی کو سنا تھا۔ چائے کا کپ خالی ہو چکا تھا، مگر دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔  


شاید اداسی کبھی ختم نہیں ہوتی، صرف بانٹنے سے ہلکی ہو جاتی ہے۔

Comments